Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 4

کیا حال ہے ؟(انعم اور حرا تصبیہا کو دیکھنے اس کے گھر آہیں تھیں ۔۔۔)

مجھے کیا ہوا ہے ؟(تصبیہا نے الٹا ان سے سوال کیا )

لو بھئی اور سنو اس کی باتیں ۔وہ جو ایک ہفتہ ہوسپیٹل میں رہ کر آئی ہو وہ کیا تھا پھر ۔۔۔(حرا بولی)

نام مت لے اس ہوسپیٹل کا ،وہ مسحوس یاد آجاتا ہے ۔اتنی زور سے انجیکشن لگایا تھا ۔۔۔(وہ رونی شکل بنا کر غصے سے بولی)

کون منحوس ؟(وہ ہم آواز بولیں )

ارے وہ ہی جیسے حمزہ سمجھ کر اس کی پینتنگ بنائی تھی ۔(تصبیہا نے آہستہ آواز میں کہا )

اووو تو بیٹا بدلہ لیا ہے اس نے تجھ سے ۔۔۔(حرا نے ہستے ہوئے کہا )

چھوڑو اس کو کچھ اور بات کرتے ہیں ۔(تصبیہا نے برا سا منہ بنا کر کہا)

اچھا یہ بتا علی بھائی کیسے ہیں ؟وہ آئے تھے تجھے دیکھنے؟(انعم نے ٹسبیہا کہ منگیتر کے بارے میں پوچھا )

ہاں ان کہ گھر والے آئے تھے ۔(تصبیہا نے بتایا )

علی بھائی نہیں آئے ۔کیوں ۔۔(حرا صدمے سے بولی )

مجھے کیا پتا کیوں نہیں آئے۔۔(تصبیہا نے اکتاتے ہوئے کہا)

تو بھی عجیب ہے ۔آج کل لوگ اپنے منگیتر کہ ساتھ ساری ساری رات باتیں کرتیں ہیں ،گھومتے پھرت ہیں ،اور ایک یہ ہے جو گھومنا تو چھوڑو موبائل پر بات تک نہیں کرتی۔(انعم نے اس کا مزاق اڑاتے ہوئے کہا )

ہماری شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں ایک نامحرم سے راتوں کو چھوپ کر فون پر باتیں کرو یا گھوموں پھرو ۔۔منگی ہی ہوئی ہے لیکن وہ ابھی بھی میرے لیے نامحرم ہی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں منگنی کا نام ڈھنگنی ہونا چاہیے کیونکہ منگنی کے بعد لڑکی کہ ڈھنگ دیکھے جاتے ہیں ،پسند نہیں آئے تو توڑ دی منگنی ۔

اور ہم لڑکیاں صرف منگنی ہی ہوجانے پر ہی کیا کچھ کرجاتی ہیں ۔۔۔ارے کس بات کی جلدی ہے کیا نکاح کہ بعد نہیں ہوسکتا یہ سب ۔مگر نہیں ہم تو ہیں ہی جلدباز قوم۔۔۔(تصبیہا نے آرام سے جواب دیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصبیہا کہ ہوسپیٹل سے واپس آنے کہ ایک ہفتے بعد موصب نے تصبیہا کہ والد کو راستے میں کھڑا دیکھا تو گاڑی ان کہ پاس روک دی ۔۔۔)

انکل آپ یہاں ؟ سب خیریت ہے ؟(موصب گاڑی سے اتر کر ان کہ پاس آیا )

کسی سے ملنے آیا تھا ۔۔۔۔(وہ مسرا کر بولے )

تو چلیں میں آپ کو ڈرپ کردیتا ہوں ۔(موصب نے اپنی خدمات پیش کیں ،وہ ایسا ہی تھا ہرکسی کی مدد کرنے میں آگے رہتا تھا )

ارے نہیں بیٹا میں چلا جاوں گا ۔۔(انھوں نے اسے پیار سے سمجھایا)

بیٹا بھی کہہ رہے ہیں اور منا بھی کررہے ہیں ۔چلیں بیٹھیں جلدی ۔۔۔(موصب نے روب سے کہا تو وہ مسکرا کر بیٹھ گئے)

(گاڑی میں بیٹھ کر تھوڑی ادھر ادھر کی باتوں کہ بعد وہ بولا )

کوئی خاص کام تھا آپ کو جو آپ اتنی گرمی میں گھر سے نکلے ؟

ہاں وہ تصبیہا کہ سسرال گیا تھا ۔۔۔(انھوں نے بتایا تو وہ چونکا )

اس کی شادی ہونے والی ہے۔۔۔(موصب نے دل میں سوچا )

اچھا مبارک ہوں ۔کب ہے شادی؟ ۔(منہ پر زبردستی مسکراہٹ لا کر بولا)

ایسی مہینے ہے ۔بس تیاریاں ہی چل رہی ہیں ۔(انھوں سے سکون سے بتایا )

تم آو گے نا ؟

آپ بولایں اور میں نا آوں ایسا ہوسکتا ہے ،میں ضرور آوں گا ،اور کوئی کام ہو تو مجھے ضرور بتاہیے گا ۔

(اور موصب نے باتوں باتوں میں لڑکے کی ساری انفورمیشن بھی لے لی ۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو دن کہ اندر اندر موصب نے علی کہ بارے میں پتا کرلیا ۔اس کا دماغ میں جو چل رہاتھا وہ واقع ریسکی تھا مگر اسے کہا پروا تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(تصبیہا مایوں کا ڈریس پہنے ہوئے تھی۔ پیلے رنگ کی لمبی فراک جس پر سیلور رنگ کا کام ہوا تھا ۔لمبے بالوں کی چوٹیا بنائے ان میں پھول لپیٹے ہوئے تھے اور پھولوں کی ہی جیولری پہنے ہوئے ہلکا سا میکپ کیے،سر پر ڈوپٹا لیے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔)

ماشااللہ ۔۔۔۔(تصبیہا کی امی بولیں جو کہ اسے ہی دیکھنے آہیں تھی کہ وہ تیار ہوئی یا نہیں اور دروازہ کھولتے ہی ان کی نظر جب تصبیہا پر پڑی تو وہ بے اختیار بول اٹھیں ۔)

کیسی لگ رہی ہو؟
(تصبیہا نے مسکرا کر پوچھا ۔)

بہت پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی ۔۔۔نظر نا لگ جائے ۔(انھوں نے پیار سے کہا )

ماں کی نظر کیسے لگ سکتی ہے ۔۔۔(تصبیہا ان کے قریب آئی اور ان کے ہاتھ پکڑ کر چومے )

ماں کی نظر نہیں لگ سکتی مگر پیار کی لگ جاتی ہے ۔اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

(وہ دونوں باتیں ہی کررہی تھیں جب حرا اندر آئی اور بولی )

انٹی علی بھائی کی امی اور ابو آئے ہیں ۔۔(اس نے آکر بتایا )

اتنی جلدی ؟(تصبیہا بولی )
ہاں اتنی جلدی اور یہاں کیوں حال میں کیوں نہیں گئے۔(تصبیہا کی امی فکر مندی سے بولیں ۔)

انٹی بس وہ دونوں ہی آئے ہیں ۔(حرا بھی فکر مند نظر آرہی تھی )

چلو دیکھتے ہیں ،تم آرام سے بیٹھو ۔(وہ تصبیہا کو کہتی ہوئی باہر چلی گیئں حرا وہی تصبیہا کے پاس ہی روک گئی )

(وہ باہر آہیں تو وہ دونوں حبیب صاحب سے باتیں کررہے تھے ۔موصب بھی وہی موجود تھا ۔ وہ سیدھی ان لوگوں کی طرف آہیئں ۔)

کیا ہو سب خیریت تو ہے ۔۔۔(حبیب صاحب نے فکرمندی سے پوچھا تو وہ لوگ ہچکچا کر بولے )

وہ ۔۔وہ بھائی صاحب دراصل بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔علی نے شادی سے انکار کردیا ہے ۔۔۔۔اس کا کہنا ہے کہ وہ کسی اور کو پسند کرتا ہے ۔اور اگر ہم نے اس کی بات نہ مانی تو وہ خودکشی کرلے گا ۔ کل رات کو اس کا فون آیا تھا ۔وہ کل رات سے گھر نہیں آیا ۔۔۔۔۔بھائی صاحب میرا ایک ہی بیٹا ہے اور مجھے وہ بہت عزیز ہے ۔ اس کی خوشی میرے لیے بہت اہم ہے۔

(علی کی امی روتے ہوئے بولیں ۔)

یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ اگر اسے نہیں پسند تھا تو پہلے کیوں نہیں بولا اس نے ۔آخری وقت میں جب سارے مہمان موجود ہیں ۔آپ رشتے سے انکار کر رہی ہیں ۔آپ اس کا مطلب بھی سمجھتی ہیں۔

(حبیب صاحب غصے سے بولے ۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کردیں )

(مجھے اس بات کا اندازہ ہے مگر ہم مجبور ہیں بھائی صاحب ۔(وہ ندامت سے بولے اور وہاں سے چلے گئے)

(حبیب صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے ان کا دماغ معاوف ہوچکا تھا ۔ موصب چوپ چاپ سب دیکھ رہا تھا ۔ تسبیہا کی امی رونے لگیں ۔دو تین عورتیں انھیں چوپ کروانے لگیں ۔)

نا جانے تصبیہا کہ نصیب میں کیا لکھا ہے ۔پہلے منگنی ٹوٹ گئی تھی ۔اب این شادی کہ وقت انکار ہوگیا ۔۔۔کیا ہوگا میری بچی کا ۔(وہ رو رہی تھیں ۔ٰ)

(موصب حبیب صاحب کہ پاس آیا اور ان سے بولا )

انکل مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے ،پلیز میرے ساتھ آہیے ۔(وہ انھیں لے کر باہر آگیا اور بولا)

مجھے معاف کردیجیے گا اگر میری بات بری لگے تو ۔۔۔(وہ روکا تو حبیب صاحب بولے)

کیا کہنا چاہتے ہو کہو ۔۔۔

میں تصبیہا سے نکاح کرنا چاہتا ہو ابھی اور اسی وقت، اگر آپکو کوئی اعتراض نہ ہو تو ۔۔۔۔۔(موصب ان کی بلکل اعتماد سے بولا )

(کچھ دیر تو حبیب صاحب اس کا منہ دیکھتے رہے ۔انھیں خاموش دیکھ کر موصب بولا )

انکل کچھ تو بولیں ۔

تم ایموشنل ہورہے ہو بیٹا ،یہ ممکن نہیں ہے۔(انھوں نے منا کیا )

کیوں ممکن نہیں ہے ۔۔۔(وہ بزید تھا )

بیٹا ایسے معاملے جلدبازی میں نہیں ہوتے ۔تمہارے اور ہمارے اسٹیٹس میں بہت بڑا گیپ ہے جو کبھی نہیں پھر سکتا ۔(انھوں نے موصب کو سمجھانے کی کوشیش کی)

یہ بات میں آپ سے کرنے والا تھا مگر پھر پتا چلا کہ آپ نے اس کی شادی تے کردی ہے اس لیے چپ ہوگیا ۔(وہ بھی اپنی بات پر قائم تھا۔)

پلیز۔۔۔آپ کو مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔۔۔۔(بہت زید کرنے پر وہ راضی ہوگئے )

آپ نکاح کی تیاری کریں میں موم ،ڈیڈ کو بلواتا ہوں ۔(فتح کے اثار اس کے چہرے سے واضع تھے۔)

(موصب نے اپنے ڈیڈ کو کال کرکے سب کچھ بتادیا ۔ایک گھنٹے میں اس کے گھر والے تصبیہا کہ گھر پہنچے ۔ حبیب صاحب سے ملاقات کے بعد انھیں وہ لوگ بہت پسند آئے ۔)

(حبیب صاحب تصبیہا کہ پاس آئے تو وہ ان کہ گلے لگ گئی ۔۔۔۔)

نہیں بیٹا دل چھوٹا نہیں کرتے ،اللہ بہت مہربان ہے ۔وہ کبھی اپنے بندے کو تنہا نہیں چھوڑتا ۔(انھوں نے تصبیہا کا سر سہلاتے ہوئے کہا)

آپ پریشان مت ہوئیں بابا ،میں بلکل ٹھیک ہوں ۔بس اپ پریشان نا ہوں ۔(تصبیہا ان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی)

بیٹا میں نے تمہارا نکاح تے کیا ہے آج ہی ہوگا ،تمہاری کیا رائے ہے ۔(انہوں نے ایک عاس سے پوچھا )

میں یہ نہیں پوچھوں گی کہ کون ہے وہ ،کیونکہ ماں باپ کبھی اپنے بچوں کے لیے برا نہیں کرتے۔۔۔(وہ بول رہی تھی جب وہ بولے )

علی سے رشتہ بھی میں نے ہی تے کیا تھا ۔۔(وہ شرمندہ ہوکربولے تو وہ بولی)

بعض اوقات فیصلے غلط ہوجاتے ہیں ،اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ماں باپ کی نیت غلط تھی ۔ آپ کو بھی تو نہیں پتا تھا نا کہ وہ ایسا نکلے گا۔(تصبیہا نے بہت نرم لہجے میں انھیں سمجھایا)

وہ لوگ آج نکاح اور رخصتی بھی چاہتے ہیں ۔۔۔۔( حبیب صاحب نے اس کہ چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ،)

مگر۔۔۔۔۔(وہ کچھ بولتی مگر اپنے باپ کی عزت کا خیال آیا تو بولی)

آپ کو کوئی اعتراض ؟(اس نے الٹا ان سے سوال کیا)

نہیں ،وہ بہت اچھا ۔نیک بچہ ہے ۔(وہ بہت پیار سے بولے )

جیسے آپ کی مرضی بابا مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔(وہ آرام سے بولی ،ان کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصبیہا کہ سائن کروانے کہ بعد مولوی صاحب موصب سے پوچھ رہے تھے ۔ کیا آپ کو قبول ہے ؟

میں نے تم جیسا گھٹیا انسان اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ۔۔(تصبیہا کی آواز اس کے دماغ میں گونج رہی تھی ۔)

قبول ہے ۔۔۔۔۔

کیا آپ کو قبول ہے؟

آج کے بعد اپنی شکل مت دیکھنا ورنہ ۔۔۔۔۔

قبول ہے ۔۔۔۔

کیا آپ کو قبول ہے ؟

پتا نہیں کیا دیکھ کر انعم نے تمہیں پسند کیا ہے ۔۔۔۔۔+

(موصب نے دانت بیچ کر کہا)

قبول ہے ۔۔۔۔۔(اور اس نے سائن کردیے ۔)

نکاح کہ بعد رخصتی ہوئی ،تصبیہا وہی پیلے جوڑے میں تھی۔

   1
0 Comments